EN हिंदी
میں چنچل اٹھلاتی ندیا بھنور سے کب تک بچتی میں | شیح شیری
main chanchal iThlati nadiya bhanwar se kab tak bachti main

غزل

میں چنچل اٹھلاتی ندیا بھنور سے کب تک بچتی میں

نسرین نقاش

;

میں چنچل اٹھلاتی ندیا بھنور سے کب تک بچتی میں
لہر لہر میں ڈوب کے ابھری ابھر ابھر کے ڈوبی میں

میں کوئی پتھر تو نہیں تھی مجھ کو چھوکر بھی دیکھا
برف کو تھوڑی آنچ تو ملتی آپ ہی آپ پگھلتی میں

انگ لگا کر بیدردی نے آگ سی بھر دی نس نس میں
ٹوٹ گئے سب لاج کے گھنگھرو ایسا جھوم کے ناچی میں

پریم کے بندھن میں بندھ کر ساجن اتنی دوری کیوں
تم بھی پیاسے پیاسے بادل پیاسی پیاسی دھرتی میں

آنے والے دوار پہ پہروں دستک دے کر لوٹ گئے
ہاتھ میں لے کر پڑھنے بیٹھی جب پریتم کی چٹھی میں

سناٹے میں جب جب چھنکی بیری پڑوسن کی پائل
جانے والے یاد میں تیری رات رات بھر جاگی میں

کیا اندھا وشواس تھا اے نسرینؔ وہ مجھ کو منا لے گا
ہر بندھن سے چھوٹ گیا وہ ہائے کیوں اس سے روٹھی میں