EN हिंदी
میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں | شیح شیری
main bunda-bandi ke darmiyan apne ghar ki chhat par khaDa raha hun

غزل

میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں

جمال احسانی

;

میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں
چراغ تھا کوئی جس کے ہمراہ رات بھر بھیگتا رہا ہوں

یہ اب کھلا ہے کہ ان میں میرے نصیب کی دوریاں چھپی تھیں
میں اس کے ہاتھوں کی جن لکیروں کو مدتوں چومتا رہا ہوں

میں سن چکا ہوں ہواؤں اور بادلوں میں جو مشورے ہوئے ہیں
جو بارشیں اب کے ہونے والی ہیں ان کے قصے سنا رہا ہوں

اس ایک ویران پیڑ پر اب کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
جو پچھلے موسم میں لکھ گیا تھا وہ نام میں ڈھونڈتا رہا ہوں

سفر کی لذت سے بڑھ کے منزل کا قرب تو معتبر نہیں ہے
وہ مل گیا اور میں ابھی تک گلی گلی خاک اڑا رہا ہوں