میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں
چراغ تھا کوئی جس کے ہمراہ رات بھر بھیگتا رہا ہوں
یہ اب کھلا ہے کہ ان میں میرے نصیب کی دوریاں چھپی تھیں
میں اس کے ہاتھوں کی جن لکیروں کو مدتوں چومتا رہا ہوں
میں سن چکا ہوں ہواؤں اور بادلوں میں جو مشورے ہوئے ہیں
جو بارشیں اب کے ہونے والی ہیں ان کے قصے سنا رہا ہوں
اس ایک ویران پیڑ پر اب کئی پرندوں کے گھونسلے ہیں
جو پچھلے موسم میں لکھ گیا تھا وہ نام میں ڈھونڈتا رہا ہوں
سفر کی لذت سے بڑھ کے منزل کا قرب تو معتبر نہیں ہے
وہ مل گیا اور میں ابھی تک گلی گلی خاک اڑا رہا ہوں
غزل
میں بوندا باندی کے درمیان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا رہا ہوں
جمال احسانی