میں اپنی خاک کو جب آئنہ بناتا ہوں
تو اس کے واسطے دل بھی نیا بناتا ہوں
ہر اک پرند رہے تا ابد یہاں شاداب
اسی لئے میں شجر بھی ہرا بناتا ہوں
بھٹک نہ جائے کہیں شہر غم میں اپنا دل
سو تیرے خواب کو میں رہنما بناتا ہوں
کرے نہ کیوں یہ ترے دل میں گھر مرے ہمدم
میں اپنے شعر کو درد آشنا بناتا ہوں
میں پہلے بھرتا ہوں اس دل میں وحشتیں اور پھر
سواد دشت کو بھی ہم نوا بناتا ہوں
وہ فاعلات و مفاعیل کے نہیں بس میں
میں اپنے شعر میں جو زاویہ بناتا ہوں
تلاش کرتی ہیں خود منزلیں جسے احمدؔ
میں دشت شوق میں وہ راستہ بناتا ہوں
غزل
میں اپنی خاک کو جب آئنہ بناتا ہوں
عتیق احمد