میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا
سنو اے دوستو اک دن میں سب کچھ کھو رہا ہوں گا
یہ دنیا کار ہائے احمقانہ ہی سے چلتی ہے
کسی منصب پہ میں بھی بیٹھ کر کچھ ہو رہا ہوں گا
ترے شکوے سے وقت نزع مجھ کو شرم آئے گی
کہ اپنے داغ دل پھر آنسوؤں سے دھو رہا ہوں گا
تری چشم تحیر دیکھ لیتی کس طرح مجھ کو
جہاں حسرت کے مارے سب تھے میں بھی تو رہا ہوں گا
مری نصرت پہ قابض ہو رہی ہے میری پسپائی
تھکے ہارے کسی لمحہ میں میں بھی سو رہا ہوں گا
غزل
میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا
جمال اویسی