EN हिंदी
میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا | شیح شیری
main apni bebasi mahsus kar ke ro raha hunga

غزل

میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا

جمال اویسی

;

میں اپنی بے بسی محسوس کر کے رو رہا ہوں گا
سنو اے دوستو اک دن میں سب کچھ کھو رہا ہوں گا

یہ دنیا کار ہائے احمقانہ ہی سے چلتی ہے
کسی منصب پہ میں بھی بیٹھ کر کچھ ہو رہا ہوں گا

ترے شکوے سے وقت نزع مجھ کو شرم آئے گی
کہ اپنے داغ دل پھر آنسوؤں سے دھو رہا ہوں گا

تری چشم تحیر دیکھ لیتی کس طرح مجھ کو
جہاں حسرت کے مارے سب تھے میں بھی تو رہا ہوں گا

مری نصرت پہ قابض ہو رہی ہے میری پسپائی
تھکے ہارے کسی لمحہ میں میں بھی سو رہا ہوں گا