میں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دوں کیا
زمین کھینچ لوں اور آسمان دے دوں کیا
میں دنیا زاد نہیں ہوں مجھے نہیں منظور
مکان لے کے تمہیں لا مکان دے دوں کیا
کہ ایک روز کھلا رہ گیا تھا آئینہ
اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا
اڑے کچھ ایسے کہ میرا نشان تک نہ رہے
میں اپنی خاک کو اتنی اڑان دے دوں کیا
یہ لگ رہا ہے کہ ناخوش ہو دوستی میں تم
تمہارے ہاتھ میں تیر و کمان دے دوں کیا
سمجھ نہیں رہے بے رنگ آنسوؤں کا کہا
انہیں میں سرخ لہو کی زبان دے دوں کیا
سنا ہے زندگی کوئی تہ سمندر ہے
بھنور کے ہاتھ میں یہ بادبان دے دوں کیا
یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے ٹھنڈے دل سے رضاؔ
نہیں بدلتا زمانہ تو جان دے دوں کیا

غزل
میں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دوں کیا
رفیع رضا