میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے
زمین ختم ہوئی اب ہے آسماں آگے
ہر ایک موڑ پہ میں پوچھتا ہوں اس کا پتہ
ہر ایک شخص یہ کہتا ہے بس وہاں آگے
بچھڑتے جاتے ہیں احباب خواب کی صورت
گزرتا جاتا ہے یادوں کا کارواں آگے
بس اگلے موڑ تلک ہی یہ صاف منظر ہے
پھر اس کے بعد وہی بے کراں دھواں آگے
غزل
میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے
قمر صدیقی