EN हिंदी
میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں | شیح شیری
main apne iKHtiyar mein hun bhi nahin bhi hun

غزل

میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

ندا فاضلی

;

میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں
دنیا کے کاروبار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

تیری ہی جستجو میں لگا ہے کبھی کبھی
میں تیرے انتظار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے
میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

اوروں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں
اک میں ہی اس دیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

مجھ سے ہی ہے ہر ایک سیاست کا اعتبار
پھر بھی کسی شمار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں