EN हिंदी
میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے | شیح شیری
main ab ukta gaya hun furqaton se

غزل

میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے

عارف اشتیاق

;

میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے
نکالوں کس طرح تجھ کو رگوں سے

جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی
محبت کر رہے تھے مشوروں سے

تجھے میں نے مجھے تو نے گنوایا
مگر اب فائدہ ان تذکروں سے

دعائیں ہو گئیں نا رد تمہاری
میں قائل ہی نہیں ہوں فلسفوں سے

مرے سب حوصلے مارے گئے ہیں
تمہاری کم سنی کے فیصلوں سے

تمہاری یاد خونی ہے مری بھی
لڑیں ہم کس طرح ان بھیڑیوں سے

وہ وحشت ہے کہ ہے وہ سوگ برپا
میں ہنستا تک نہیں ہوں قہقہوں سے

تمہارے غم کہ جاں کو آ گئے ہیں
نہیں شاید مگر ہاں کچھ دنوں سے

ہمارے بیچ اک دیوار ہے اب
اسے اونچا کریں گے نفرتوں سے