میں عالم امکاں میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں
وہ پوچھ رہا ہے کہ کسے ڈھونڈ رہا ہوں
ماضی کے بیاباں میں جو گم ہو گیا مجھ سے
میں حال کے جنگل میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں
گو پیش نظر ایک تماشہ ہے ولیکن
اے وجہ تماشہ میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
تو ہاتھ جو آتا نہیں اس کا ہے سبب کیا
شاید میں تجھے تجھ سے پرے ڈھونڈ رہا ہوں
چھینا تھا جسے صبح گریزاں کی چمک نے
اس لمحے کو اب شام ڈھلے ڈھونڈ رہا ہوں
ہر اک سے جو کہتا ہوں کہیں عرشؔ کو ڈھونڈو
کیوں اپنے بہانے میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں
غزل
میں عالم امکاں میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں
عرش صدیقی