میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے
ساغر سے گریزاں ہے خود تشنہ لبی کب سے
اے سایۂ گیسو کے دیوانو بتاؤ تو
معیار جنوں ٹھہری راحت طلبی کب سے
چوسا ہے لہو جس نے برسوں مہ و انجم کا
انساں کا مقدر ہے وہ تیرہ شبی کب سے
اک حشر سا برپا ہے زنداں سے بیاباں تک
پابند سلاسل ہے ایذا طلبی کب سے
جس کے لیے ساز اپنا سر پھوڑتے پھرتے ہیں
نغموں کی وہ دولت ہے سینے میں دبی کب سے
جو دار و رسن کو بھی خاطر میں نہیں لاتی
تعزیر کے قابل ہے وہ بے ادبی کب سے
فرصت غم دوراں سے ملتی ہی نہیں ارشدؔ
دل میں لیے پھرتے ہیں موج عنبی کب سے
غزل
میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے
ارشد صدیقی