EN हिंदी
مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے | شیح شیری
mai rahe mina rahe gardish mein paimana rahe

غزل

مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے

ریاضؔ خیرآبادی

;

مے رہے مینا رہے گردش میں پیمانہ رہے
میرے ساقی تو رہے آباد مے خانہ رہے

حشر بھی تو ہو چکا رخ سے نہیں مٹتی نقاب
حد بھی آخر کچھ ہے کب تک کوئی دیوانہ رہے

کچھ نہیں ہم دل جلوں کی بے قراری کچھ نہیں
تیری محفل وہ ہے جس میں شمع پروانہ رہے

گورے ہاتھوں میں بنے چوڑی خط ساغر کا عکس
تیرے دست ناز میں نازک سا پیمانہ رہے

کم سے کم اتنا اثر ہو جو سنے آ جائے نیند
بیکسوں کی موت کا ہونٹھوں پر افسانہ رہے

رات جو جا بیٹھتے ہیں روز ہم مجنوں کے پاس
پہلے ان بن رہ چکی ہے اب تو یارانہ رہے

حشر ہو تم شرم کے پتلے نہ بننا حشر میں
چال اٹھلائی ہوئی انداز مستانہ رہے

تاب اس کی لا نہیں سکتے کبھی نازک دماغ
بار سر ہے دور سر سے تاج شاہانہ رہے

ان کے کہنے سے کبھی یوں کہہ لیے دو چار شعر
رات دن فکر سخن میں کوئی دیوانہ رہے

ان بتوں کے چلتے ہم نے دل کو پتھر کر لیا
بت رہے کوئی نہ یا رب کوئی بت خانہ رہے

طور پر آ میں نہ میرے سامنے یوں ہی سہی
ہاں ذرا طرز تکلم بے حجابانہ رہے

زندگی کا لطف ہے اڑتی رہے ہر دم ریاضؔ
ہم ہوں شیشے کی پری ہو گھر پری خانہ رہے