EN हिंदी
مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور | شیح شیری
mai pite hain din raat piya jae hai kuchh aur

غزل

مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور

کانتی موہن سوز

;

مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور
سنتے ہیں کہ ایسے میں کیا جائے ہے کچھ اور

گر خوف نہیں ہے تو کوئی ضبط ہے یارو
دل کہتا ہے کچھ اور کہا جائے ہے کچھ اور

اسباب مرا دیکھ کے ہنسنے لگے احباب
کیا وقت سفر ساتھ لیا جائے ہے کچھ اور

منزل ہے بہت پاس بہت پاس بہت پاس
اب دیکھیے کس کس سے چلا جائے ہے کچھ اور

کیسے کہیں اب لطف سے باز آئیے صاحب
ہر بار کا احسان ہلا جائے ہے کچھ اور

واضح نہیں ہے اس پہ ابھی حرف مکرر
کچھ اور مٹاتا ہے مٹا جائے ہے کچھ اور

کچھ دور سے دیکھو تو زمیں رشک جناں ہے
پھر پاس سے دیکھو تو نظر آئے ہے کچھ اور