مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور
سنتے ہیں کہ ایسے میں کیا جائے ہے کچھ اور
گر خوف نہیں ہے تو کوئی ضبط ہے یارو
دل کہتا ہے کچھ اور کہا جائے ہے کچھ اور
اسباب مرا دیکھ کے ہنسنے لگے احباب
کیا وقت سفر ساتھ لیا جائے ہے کچھ اور
منزل ہے بہت پاس بہت پاس بہت پاس
اب دیکھیے کس کس سے چلا جائے ہے کچھ اور
کیسے کہیں اب لطف سے باز آئیے صاحب
ہر بار کا احسان ہلا جائے ہے کچھ اور
واضح نہیں ہے اس پہ ابھی حرف مکرر
کچھ اور مٹاتا ہے مٹا جائے ہے کچھ اور
کچھ دور سے دیکھو تو زمیں رشک جناں ہے
پھر پاس سے دیکھو تو نظر آئے ہے کچھ اور

غزل
مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور
کانتی موہن سوز