EN हिंदी
مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا | شیح شیری
mai-kashi chhoD di tauhin-e-hunar kar aaya

غزل

مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا

سلمان انصاری

;

مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا
جام الٹائے سبو زیر و زبر کر آیا

جب وہ دیوار گری تھی تو یہ در کیوں رہتا
بس یہی سوچ کے مسمار وہ گھر کر آیا

دشت امکان میں تنہا میں کہاں تک جاتا
جب گماں بھی نہ رہا ترک سفر کر آیا

ایک امید کا عالم ہے کہ تھکتا ہی نہیں
بار احسان سے بھی صرف نظر کر آیا

راہ دشوار تھی اور اس کے تغافل کا یقیں
شکر الطاف کہ یہ معرکہ سر کر آیا

وحشت‌ زیست مبارک تری ثابت قدمی
داغ بھرتا رہا قطرے کو گہر کر آیا

ناوک ناز تری خیر کہ عشق خوشنود
خود نمائی کے لئے خون جگر کر آیا

مجھ سے بہتر تو مرا خواب تھا جھوٹا ہی سہی
ترے پہلو میں جو اک رات بسر کر آیا

ہم سمجھتے تھے جسے ہمدم و ہمراز اپنا
وہ ہی سلمانؔ حریفوں کو خبر کر آیا