مے کدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا
دور جام بے خودی بیگانۂ ایام تھا
روح لرزاں آنکھ محو دید دل کا نام تھا
عشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا
رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا
حسن بھی کتنا خراب گردش ایام تھا
غم کدے میں دہر کے یوں تو اندھیرا تھا مگر
عشق کا داغ سیہ بختی چراغ شام تھا
تیری دزدیدہ نگاہی یوں تو نا محسوس تھی
ہاں مگر دفتر کا دفتر حسن کا پیغام تھا
شاق اہل شوق پر تھیں اس کی عصمت داریاں
سچ ہے لیکن حسن در پردہ بہت بد نام تھا
محو تھے گلزار رنگا رنگ کے نقش و نگار
وحشتیں تھی دل کے سناٹے تھے دشت شام تھا
بے خطا تھا حسن ہر جور و جفا کے بعد بھی
عشق کے سر تا ابد الزام ہی الزام تھا
یوں گریباں چاک دنیا میں نہیں ہوتا کوئی
ہر کھلا گلشن شہید گردش ایام تھا
دیکھ حسن شرمگیں در پردہ کیا لایا ہے رنگ
عشق رسوائے جہاں بدنام ہی بدنام تھا
رونق بزم جہاں تھا گو دل غمگیں فراقؔ
سرد تھا افسردہ تھا محروم تھا ناکام تھا
غزل
مے کدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا
فراق گورکھپوری