مے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا
کبھی میکش کبھی ساقی کبھی مینا ہونا
از ازل تا بہ ابد محو تماشا ہونا
میں وہ ہوں جس کو نہ مرنا ہے نہ پیدا ہونا
سارے عالم میں ہے بیتابی و شورش برپا
ہائے اس شوخ کا ہم شکل تمنا ہونا
فصل گل کیا ہے یہ معراج ہے آب و گل کی
میری رگ رگ کو مبارک رگ سودا ہونا
کہہ کے کچھ لالہ و گل رکھ لیا پردہ میں نے
مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہونا
جلوۂ حسن کو ہے چشم تحیر کی طلب
کس کی قسمت میں ہے محروم تماشا ہونا
دہر ہی سے وہ نمایاں بھی ہے پنہاں بھی ہے
جیسے صہبا کے لیے پردۂ مینا ہونا
تیری شوخی تیری نیرنگ ادائی کے نثار
اک نئی جان ہے تجدید تمنا ہونا
حسن کے ساتھ ہے بیگانہ نگاہی کا مزہ
قہر ہے قہر مگر عرض تمنا ہونا
اس سے بڑھ کر کوئی بے راہروی کیا ہوگی
گام پر شوق کا منزل سے شناسا ہونا
مائل شعر و غزل پھر ہے طبیعت اصغرؔ
ابھی کچھ اور مقدر میں ہے رسوا ہونا
غزل
مے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا
اصغر گونڈوی