EN हिंदी
محو فریاد ہو گیا ہے دل | شیح شیری
mahw-e-fariyaad ho gaya hai dil

غزل

محو فریاد ہو گیا ہے دل

باقر آگاہ ویلوری

;

محو فریاد ہو گیا ہے دل
آہ برباد ہو گیا ہے دل

سینہ کادی میں اپنے ناخن سے
رشک فرہاد ہو گیا ہے دل

دیکھتے دیکھتے ستم تیرا
سخت ناشاد ہو گیا ہے دل

کرتے ہی کرتے تیرے قد کا خیال
مثل شمشاد ہو گیا ہے دل

ہو کے پابند تیرے کاکل سے
سر سے آزاد ہو گیا ہے دل

الفت اہل بیت سے آگاہؔ
حیدرآباد ہو گیا ہے دل