محسوس کروگے تو گزر جاؤگے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
وحشت کا یہ عالم کہ پس چاک گریباں
رنجش ہے بہاروں سے الجھتے ہیں خزاں سے
اک عمر ہوئی اس کے در و بام کو تکتے
آواز کوئی آئی یہاں سے نہ وہاں سے
اٹھتے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے سر بزم
بیٹھے ہیں تو اب مر کے ہی اٹھیں گے یہاں سے
ہر موڑ پہ وا ہیں مری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جاتا ہے کہاں سے
کیا ناوک مژگاں سے رکھیں زخم کی امید
چلتے ہیں یہاں تیر کسی اور کماں سے
آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے عالم مرے دل کا
مطلب ہے اس عالم کو زباں سے نہ بیاں سے
غزل
محسوس کروگے تو گزر جاؤگے جاں سے
جاوید صبا