EN हिंदी
محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز | شیح شیری
mahshar mein chalte chalte karunga ada namaz

غزل

محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز

احمد حسین مائل

;

محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز
پڑھ لونگا پل صراط پہ مائلؔ قضا نماز

سر جائے عمر بھر کی ہو یا رب ادا نماز
آئے مری قضا تو پڑھوں میں قضا نماز

مانگی نجات ہجر سے تو موت آ گئی
روزے گلے پڑے جو چھڑانے گیا نماز

دیکھو کہ پھنس نہ جائیں فرشتے بھی جال میں
کیوں پڑھ رہے ہو کھول کے زلف رسا نماز

ہر اک ستون خانۂ شرع شریف ہے
روزہ ہو یا زکوٰۃ ہو یا حج ہو یا نماز

یہ کیوں خمیدہ ہے صفت صاحب رکوع
کیا پڑھ رہی ہے دوش پہ زلف دوتا نماز

نیت جو باندھ لی تو چلا میں حضور میں
رہبر مری نماز مری رہنما نماز

ساقی قیام سے یہ جو آیا رکوع میں
شیشہ خدا کے خوف سے پڑھتا ہے کیا نماز

اٹھ اٹھ کے بیٹھ بیٹھ کے کرتا ہے کیوں غرور
زاہد کہیں بڑھائے نہ تیری ریا نماز

ارکان یاد ہیں مجھے اے داور جزا
گر حکم ہو تو سامنے پڑھ لوں قضا نماز

شیطان بن گیا ہے فرشتہ غرور سے
کیا فائدہ ہوا جو پڑھی جا بہ جا نماز

لے جاتے ہیں مجھے سوئے دوزخ کشاں کشاں
روزے مرے ادھر ہیں ادھر ہے قضا نماز

حق الیقین کا نام عروج مقام ہے
پڑھتے ہیں اولیا سر دوش ہوا نماز

مسجد میں پانچ وقت دعا وہ بھی وصل کی
مائلؔ بتوں کے واسطے پڑھتے ہو کیا نماز