محرومیوں کا مجھ کو جو عادی بنا دیا
میں پوچھتا ہوں تجھ سے دیا بھی تو کیا دیا
ہاں اے ہجوم اشک یہ اچھا نہیں ہوا
تو نے ہمارے ضبط کا رتبہ گھٹا دیا
کیسے اماں ملے گی ہمیں تیز دھوپ سے
سورج نے ہر درخت کا سایہ جلا دیا
اک اجنبی کی بات میں جادو کا تھا اثر
پتھر دلوں میں درد محبت جگا دیا
جب اپنے ساتھ ساتھ تھا خوش حال تھا بہت
خود سے بچھڑ کے خود کو گداگر بنا دیا
کل رات تیرے وعدے کا بھی کھل گیا بھرم
زخموں کو ہنستے دیکھ کے میں مسکرا دیا
رنگینیٔ بہار کے ہم منتظر ہیں کیوں
باد خزاں نے رنگ گلستاں اڑا دیا
دل کا چراغ خود ہی جلایا کبھی صدفؔ
اور خود ہی اس چراغ کو آخر بجھا دیا
غزل
محرومیوں کا مجھ کو جو عادی بنا دیا
مشتاق صدف