محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں
پستان کے انار چھوٹتے ہیں
دل پر ہے وہ صدمۂ جدائی
گھڑیال بھی سینہ کوٹتے ہیں
کوئی تو متاع دل کو پوچھے
آباد رہیں جا لوٹتے ہیں
آنکھوں کو بہائے گا یہ رونا
دریا میں چراغ چھوٹتے ہیں
طے کس سے ہو وادئ محبت
چلتے ہوئے پاؤں ٹوٹتے ہیں
کس کے گالوں سے ہمسری کیے
سونے کے ورق کو کوٹتے ہیں
یہ دل اسے مفت بھی ہے مہنگا
ہم خوش ہیں کی سستے چھوٹتے ہیں
رندوں نے دیا جو سانہ اپنا
ساقی کی دکان لوٹتے ہیں
کیا شکوہ سنگ کو دکان بحرؔ
ہم پر تو پہاڑ ٹوٹتے ہیں
غزل
محرم کے ستارے ٹوٹتے ہیں
امداد علی بحر