مہکی شب آئینہ دیکھے اپنے بستر سے باہر
خواب کا عالم ریزہ ریزہ چشم منظر سے باہر
حشر صدا ہے پروازوں میں روئی کے گالے اونچے پہاڑ
آسماں اک شیشے کا ٹکڑا وقت کے شہ پر سے باہر
خون اگلتا جسم شفق سی پھولی آنکھوں آنکھوں میں
قوس قزح کے نازک بازو دست خنجر سے باہر
ذہن و نظر میں اندر اندر پھولتے پھلتے موسم گل
خوشبو خوشبو لفظ کے جادو رنگ لب تر سے باہر
تشبیہیں پیچیدہ کنائے دو عالم کے رمز و علم
غور سے دیکھو کچھ بھی نہیں اس حسن کے پیکر سے باہر
غزل
مہکی شب آئینہ دیکھے اپنے بستر سے باہر
ذکاء الدین شایاں