EN हिंदी
محفلوں کو گزار پائے ہم | شیح شیری
mahfilon ko guzar pae hum

غزل

محفلوں کو گزار پائے ہم

نوین سی چترویدی

;

محفلوں کو گزار پائے ہم
تب کہیں خلوتوں پہ چھائے ہم

ہیں اداسی کے کوکھ جائے ہم
زندگی کو نہ راس آئے ہم

کھاد پانی بنا دیا خود کو
سلسلے وار لہلہائے ہم

نسل تاروں کی ضد لگا بیٹھی
استعارے اتار لائے ہم

روح کے ہونٹھ سل کے ہی مانے
حرکتوں سے نہ بعض آئے ہم

فرض ہم پر ہے روشنی کا سفر
نور کی چھوٹ کے ہیں جائے ہم

پیاس کو پیار کرنا تھا کیول
ایک اکھشر بدل نہ پائے ہم

بس ہمارے ہی ساتھ رہتی ہے
کیوں اداسی کو اتنا بھائے ہم