محفلوں کو گزار پائے ہم
تب کہیں خلوتوں پہ چھائے ہم
ہیں اداسی کے کوکھ جائے ہم
زندگی کو نہ راس آئے ہم
کھاد پانی بنا دیا خود کو
سلسلے وار لہلہائے ہم
نسل تاروں کی ضد لگا بیٹھی
استعارے اتار لائے ہم
روح کے ہونٹھ سل کے ہی مانے
حرکتوں سے نہ بعض آئے ہم
فرض ہم پر ہے روشنی کا سفر
نور کی چھوٹ کے ہیں جائے ہم
پیاس کو پیار کرنا تھا کیول
ایک اکھشر بدل نہ پائے ہم
بس ہمارے ہی ساتھ رہتی ہے
کیوں اداسی کو اتنا بھائے ہم
غزل
محفلوں کو گزار پائے ہم
نوین سی چترویدی