محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا
قد سرو کیا رخ گل مہتاب بنایا
جب کچھ نہ بنی عشق نے بیتاب بنایا
خود بن گیا شعلہ مجھے سیماب بنایا
اس حسن کے دریا نے جو پھر کر مجھے دیکھا
موج قدم ناز کو گرداب بنایا
سرمست شہادت ہیں ترے عشق میں ساقی
آب دم خنجر کو مئے ناب بنایا
آگاہ کیا عشق نے قانون وفا سے
جب ناخن شمشیر کو مضراب بنایا
سب عضو بدن شمع صفت بہہ گئے گل کر
اس سوزش دل نے مجھے سیلاب بنایا
اک رات اڑائی نہ مری دختر رز سے
ساقی نے بط مے کو بھی سرخاب بنایا
جسم ایسا دمکتا ہے کہ کپڑے چمک اٹھے
نینو کو ترے حسن نے کمخواب بنایا
کب طالب راحت ہوئے زخمیٔ محبت
مرہم کی جو حاجت ہوئی تیزاب بنایا
عارض نے کیا سر بہ زمیں سارے گلوں کو
قامت نے ہر اک شاخ کو محراب بنیا
اے بحرؔ بر و بحر میں گردش رہے ہم کو
قسمت نے بگولا تجھے گرداب بنایا
غزل
محبوب خدا نے تجھے نایاب بنایا
امداد علی بحر