مہکتی آنکھوں میں سوچا تھا خواب اتریں گے
پتا نہ تھا کہ یہاں بھی عذاب اتریں گے
فریب کھائے گی ہر بار میری تشنہ لبی
بدن کے دشت پہ جب جب سراب اتریں گے
مری لحد پہ نہ روشن کرے چراغ کوئی
یہ وہ جگہ ہے جہاں آفتاب اتریں گے
سفید پوشوں کی کب تک چھپیں گی کرتوتیں
کہ دھیرے دھیرے سبھی کے نقاب اتریں گے
نظر جمائے ہیں دہلیز انتظار پہ ہم
فراز کعبہ سے عزت مآب اتریں گے
گناہ لگتی ہے الفت تمہیں تو لگنے دو
یہ وہ گناہ ہے جس پر ثواب اتریں گے
تمام ہوگی تبھی تو کتاب زیست رضاؔ
غم حیات کے جب انتساب اتریں گے
غزل
مہکتی آنکھوں میں سوچا تھا خواب اتریں گے
رضا مورانوی