مہک رہا ہے بدن سارا کیسی خوشبو ہے
یہ تیرے لمس کی تاثیر ہے کہ جادو ہے
تمہارا نرم و سبک ہاتھ چھو گیا تھا کبھی
یہ کیسی آگ ہے سوزاں ہر ایک پہلو ہے
ہے کس قدر متوازن نگاہ و دل کا ملاپ
کہ جیسے دونوں طرف ایک ساں ترازو ہے
رواں دواں ہے جدائی کا کرب یہ کیسا
وہ مطمئن نہ مجھے اپنے دل پہ قابو ہے
زمانہ کہتا ہے جس کو حسین تاج محل
وفا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا اک آنسو ہے
بہت حسین ہے ماحول زندگی صادقؔ
نظر کے سامنے جب سے وہ آئینہ رو ہے
غزل
مہک رہا ہے بدن سارا کیسی خوشبو ہے
صادق اندوری