EN हिंदी
مگر وہ دیا ہی نہیں مان کر کے | شیح شیری
magar wo diya hi nahin man kar ke

غزل

مگر وہ دیا ہی نہیں مان کر کے

احمد جاوید

;

مگر وہ دیا ہی نہیں مان کر کے
بہت ہم نے دیکھا ہے جی جان کر کے

کبھی دل کو بھی سیر کر جاؤ صاحب
یہ غنچہ بھی ہے گا گلستان کر کے

نظر اس سراپے میں سو جا سے پلٹی
زلیخائی یوسفستان کر کے

وہ جس روز نکلیں جگ اجیارنے کو
یہ دل بھی دکھا لائیو دھیان کر کے

جناب آپ حور و ملک ہوں گے لیکن
سمجھیے گا عاشق کو انسان کر کے

تری لالہ زاری سلامت کہ ہم بھی
کھڑے ہیں کوئی غنچہ ارمان کر کے

مسیح و خضر سر بکف پھر رہے ہیں
کوئی اس پہ مرنا ہے آسان کر کے

مری کشت جاں پر سے گزرا ہے جاویدؔ
سحاب جنوں زور باران کر کے