مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی
ہاتھ ان کا ہم نے تھام لیا ہے کبھی کبھی
مے کش بھلا سکیں گے نہ ساقی کا یہ کرم
گرتوں کو اس نے تھام لیا ہے کبھی کبھی
ساقی نے جو پلائی ہماری ہی تھی خرید
ہم سے بھی اس نے دام لیا ہے کبھی کبھی
کیا بات ہے کہ ترک تعلق کے باوجود
ہم نے تمہارا نام لیا ہے کبھی کبھی
اے فرط شوق ہم نے تصور کے فیض سے
نظارہ ان کا عام لیا ہے کبھی کبھی
ٹھکراتا کیسے حسن کی اس پیش کش کو میں
مجبور ہو کے جام لیا ہے کبھی کبھی
دیکھا کبھی نہیں انہیں اے رازؔ بزم میں
جلوہ کنار بام لیا ہے کبھی کبھی

غزل
مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی
راز لائلپوری