مداوائے جنوں سیر گلستاں سے نہیں ہوتا
رفوئے چاک دل تار گریباں سے نہیں ہوتا
بجز منزل کہیں راحت نہیں ملتی مسافر کو
علاج آبلہ پائی بیاباں سے نہیں ہوتا
حجاب دوست نے بخشا ہے وہ لطف یقیں دل کو
کہ یہ آسودہ اب حسن نمایاں سے نہیں ہوتا
جلا ہوتی ہے ظرف زیست پر تنقید دانا سے
مداوا نفس کا چشم ثنا خواں سے نہیں ہوتا
بقدر ظرف فطرت کرتی ہے بالیدگی دل کی
یہ وہ کار اہم ہے جو دبستاں سے نہیں ہوتا
کیا ہے روشناس عفو میں نے تیری رحمت کو
لیا وہ کام عصیاں سے جو ایماں سے نہیں ہوتا
جگر کے داغ ہی مرقد میں کام اعجازؔ آئیں گے
اجالا ایسی ظلمت میں چراغاں سے نہیں ہوتا

غزل
مداوائے جنوں سیر گلستاں سے نہیں ہوتا
اعجاز وارثی