مچلتی ہے مرے آغوش میں خوشبوئے یار اب تک
مری آنکھوں میں ہے اس سحر رنگیں کا خمار اب تک
کوئی آتا نہیں اب دل کی بستی میں مگر پھر بھی
امیدوں کے چراغوں سے ہیں روشن رہ گزار اب تک
ابھی تک نصف شب کو چاندنی گاتی ہے جھرنوں میں
نہیں بدلی شباب منتظر کی یادگار اب تک
جلا رکھے ہیں شہراہوں پہ اشکوں کے دئے کب سے
نہیں گزرا کبھی اس سمت سے وہ شہسوار اب تک
شکست آرزو کو عشق کا انجام کیوں سمجھوں
مقابل ہے مرے آئینۂ لیل و نہار اب تک
غزل
مچلتی ہے مرے آغوش میں خوشبوئے یار اب تک
احمد ندیم قاسمی