ماضی! تجھ سے ''حال'' مرا شرمندہ ہے
مجھ سے اچھا آج مرا کارندہ ہے
کیسا انساں ترس رہا ہے جینے کو
کیسے ساحل پر اک مچھلی زندہ ہے
اس کے پیچھے اس سے بڑھ کر اک انسان
آگے آگے اک خوں خوار درندہ ہے
جیسے کوئی کاٹ رہا ہے جال مرا
جیسے اڑنے والا کوئی پرندہ ہے
نوع بشر کا وحشی پن جب یاد کرو
یہ مت بھولو جنگل کا باشندہ ہے
بجھتے بجھتے دے جاتا ہے کوئی شہ
خاکستر سے چنگاری شرمندہ ہے
تمہیں اگر آثار دکھائی دیتے ہوں
دیکھو کیا ہونے والا آئندہ ہے
غزل
ماضی! تجھ سے ''حال'' مرا شرمندہ ہے
غلام مرتضی راہی