مایوس ہو کے بزم سے تیری نکل کے ہم
شدت سے منتظر ہیں پیام اجل کے ہم
توبہ تو کی تھی ہم نے کسی کے سجھاؤ پر
پی لیں گے آج توبہ ارادہ بدل کے ہم
تب شعلۂ وفا کی ترے روشنی ہوئی
جب خاک ہو چکے تری فرقت میں جل کے ہم
مسجد میں تھے تو واعظ و ملا کے بیچ تھے
پہنچے جو میکدے میں تو ساغر میں چھلکے ہم
پھرتے ہیں زخم دل لئے صحراؤں میں مجیدؔ
کیا خواب دیکھتے تھے حسیں اک محل کے ہم
غزل
مایوس ہو کے بزم سے تیری نکل کے ہم
مجید میمن