EN हिंदी
معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا | شیح شیری
mashuq hamein baat ka pura nahin milta

غزل

معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا

بیخود دہلوی

;

معشوق ہمیں بات کا پورا نہیں ملتا
دل جس سے ملائیں کوئی ایسا نہیں ملتا

دنیا میں اگر ڈھونڈیئے تو کیا نہیں ملتا
سب ملتے ہیں اک چاہنے والا نہیں ملتا

عشاق سے یوں آنکھ تمہاری نہیں ملتی
اغیار سے دل جیسے ہمارا نہیں ملتا

رہتی ہے کسر ایک نہ اک بات کی سب میں
ہم کو تو ان اچھوں میں بھی اچھا نہیں ملتا

کچھ حال سنے کچھ ہمیں تدبیر بتائے
غم خوار تو کیسا کوئی اتنا نہیں ملتا

کیا مفت میں تم دل کے خریدار بنے ہو
بے خرچ کئے دام یہ سودا نہیں ملتا

جب دیکھیے ہم راہ ہے دشمن کا تصور
ہم سے تو وہ خلوت میں بھی تنہا نہیں ملتا

دل کوئی ملاتا نہیں ٹوٹے ہوئے دل سے
دنیا میں ہمیں جوڑ ہمارا نہیں ملتا

برباد کیا یاس نے یوں خانۂ دل کو
ڈھونڈے سے بھی اب داغ تمنا نہیں ملتا

جو بات ہے دنیا سے نرالی ہے نئی ہے
انداز کسی میں بھی تمہارا نہیں ملتا

آنکھیں کہے دیتی ہیں کہ دل صاف نہیں ہے
ملتا ہے وہ اس رنگ سے گویا نہیں ملتا

کہتے ہیں جلانے کو ہم اغیار کے منہ پر
ایسوں سے تو وہ رشک مسیحا نہیں ملتا

ظاہر ہے ملاقات ہے باطن میں جدائی
تم ملتے ہو دل ہم سے تمہارا نہیں ملتا

افسوس تو یہ ہے کہ تمہیں قدر نہیں ہے
عاشق تو زمانے میں بھی ڈھونڈا نہیں ملتا

کہنا وہ شرارت سے ترا دل کو چرا کر
کیا ڈھونڈتے ہو ہم سے کہو کیا نہیں ملتا

بیخودؔ نگہ لطف پہ دے ڈالئے دل کو
جو ملتا ہے سرکار سے تھوڑا نہیں ملتا