معرکہ ختم ہوا جنگ ابھی جاری ہے
دل کی مانیں کہ خرد کی یہی دشواری ہے
کوئی پتا نہیں ہلتا ہے نہ کھلتی ہے زباں
آہ پھر سے کسی طوفان کی تیاری ہے
کیوں نہ یہ دیکھ کے بینائی دغا دے جائے
شمس پر بھی ابھی ظلمت کا فسوں طاری ہے
اب یہ حسرت بھی لئے جاتے ہیں دل کی دل میں
یہ تو کہہ لیتے ترا تیر بہت کاری ہے
ہائے کم ظرفیٔ دل تو نے کہیں کا نہ رکھا
آہ نے کہہ دیا تعزیر بہت بھاری ہے
تیرے مشکور ہیں ہمدم کیا واضح تو نے
فعل غارت گری صیاد کی ناچاری ہے
وقت فرقت یہ کرم سوزؔ پہ برپا کر دے
ہنس کے کہہ دے کہ یہ انعام وفاداری ہے

غزل
معرکہ ختم ہوا جنگ ابھی جاری ہے
کانتی موہن سوز