مارا ہمیں اس دور کی آساں طلبی نے
کچھ اور تھے اس دور میں جینے کے قرینے
ہر جام لہو رنگ تھا دیکھا یہ سبھی نے
کیوں شیشۂ دل چور تھا پوچھا نہ کسی نے
اب حلقۂ گرداب ہی آغوش سکوں ہے
ساحل سے بہت دور ڈبوئے ہیں سفینے
ہر لمحۂ خاموش تھا اک دور پر آشوب
گزرے ہیں اسی طور سے سال اور مہینے
ماضی کے مزاروں کی طرف سوچ کے بڑھنا
ہو جاؤگے مایوس نہ کھو دو یہ دفینے
ہر بزم سخن جھوٹے نگینوں کی نمائش
سرتاج سخن تھے جو کہاں ہیں وہ نگینے
غزل
مارا ہمیں اس دور کی آساں طلبی نے
زاہدہ زیدی