مانوس ہو چکے ہیں ترے آستاں سے ہم
اب زندگی بدل کے اٹھیں گے یہاں سے ہم
تنہائیاں دلوں کی بھلا کس طرح مٹیں
کچھ اجنبی سے آپ ہیں کچھ بدگماں سے ہم
اب عالم سکوت ہی روداد عشق ہے
کچھ عرض حال کر نہیں سکتے زباں سے ہم
ہے راز بحر عشق عجب حیرت آفریں
یہ دیکھنا ہے ڈوب کے ابھریں کہاں سے ہم
برباد بار بار نشیمن ہوا مگر
غافل ہیں آج تک نگہ باغباں سے ہم
ملتا کسی نظر کا سہارا اگر ہمیں
تھکتے نہ یوں حیات کے بار گراں سے ہم
حاصل ہوا وہ لطف اسیری میں اے نسیمؔ
تا عمر بے نیاز رہے آشیاں سے ہم
غزل
مانوس ہو چکے ہیں ترے آستاں سے ہم
نسیم شاہجہانپوری