EN हिंदी
مانوس ہو چکے ہیں ترے آستاں سے ہم | شیح شیری
manus ho chuke hain tere aastan se hum

غزل

مانوس ہو چکے ہیں ترے آستاں سے ہم

نسیم شاہجہانپوری

;

مانوس ہو چکے ہیں ترے آستاں سے ہم
اب زندگی بدل کے اٹھیں گے یہاں سے ہم

تنہائیاں دلوں کی بھلا کس طرح مٹیں
کچھ اجنبی سے آپ ہیں کچھ بدگماں سے ہم

اب عالم سکوت ہی روداد عشق ہے
کچھ عرض حال کر نہیں سکتے زباں سے ہم

ہے راز بحر عشق عجب حیرت آفریں
یہ دیکھنا ہے ڈوب کے ابھریں کہاں سے ہم

برباد بار بار نشیمن ہوا مگر
غافل ہیں آج تک نگہ باغباں سے ہم

ملتا کسی نظر کا سہارا اگر ہمیں
تھکتے نہ یوں حیات کے بار گراں سے ہم

حاصل ہوا وہ لطف اسیری میں اے نسیمؔ
تا عمر بے نیاز رہے آشیاں سے ہم