مانے تو کس کی دیوانہ مانے
جتنی زبانیں اتنے فسانے
انداز اس کا احوال میرا
کچھ میں نہ سمجھوں کچھ وہ نہ جانے
اللہ رے یہ خود اعتمادی
میں اب چلا ہوں ان کو بلانے
گم کردۂ رہ کیا سوچتا ہے
چھوڑ آیا پیچھے کتنے ٹھکانے
میری وفا کا وہ معترف ہے
اپنی خطا کو مانے نہ مانے
چاہو تو آؤ چاہو نہ آؤ
دونوں کے یکساں حیلے بہانے
کچھ میرے غم سے نسبت ہے ان کو
یاد آ رہے ہیں کتنے فسانے
کیا ہے سلیمؔ ان باتوں کا حاصل
کس کو چلا ہے تو آزمانے
غزل
مانے تو کس کی دیوانہ مانے
سلیم احمد