مانا تری نظر میں ترا پیار ہم نہیں
کیسے کہیں کہ تیرے طلب گار ہم نہیں
سینچا تھا جس کو خون تمنا سے رات دن
گلشن میں اس بہار کے حق دار ہم نہیں
ہم نے تو اپنے نقش قدم بھی مٹا دیے
لو اب تمہاری راہ میں دیوار ہم نہیں
یہ بھی نہیں کے اٹھتی نہیں ہم پہ انگلیاں
یہ بھی نہیں کے صاحب کردار ہم نہیں
کہتے ہیں راہ عشق میں بڑھتے ہوئے قدم
اب تجھ سے دور منزل دشوار ہم نہیں
جانیں مسافران رہ آرزو ہمیں
ہیں سنگ میل راہ کی دیوار ہم نہیں
پیش جبین عشق اسی کا ہے نقش پا
اس کے سوا کسی کے پرستار ہم نہیں
غزل
مانا تری نظر میں ترا پیار ہم نہیں
نقش لائل پوری