EN हिंदी
مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز | شیح شیری
mana ki mera dil bhi jigar bhi hai koi chiz

غزل

مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز

نوح ناروی

;

مانا کہ مرا دل بھی جگر بھی ہے کوئی چیز
لیکن وہ نظر تیر نظر بھی ہے کوئی چیز

ممکن نہیں وہ چاہنے والوں کو نہ چاہیں
اخلاص و محبت کا اثر بھی ہے کوئی چیز

لٹ جائے کہ رہ جائے رہ عشق و وفا میں
دل بھی ہے کوئی مال جگر بھی ہے کوئی چیز

ان سے جو نہ اٹھا تھا اسے اس نے اٹھایا
قائل ہیں ملائک کہ بشر بھی ہے کوئی چیز

چھپنے کے لئے شوق سے پردے میں چھپیں آپ
اتنا رہے معلوم نظر بھی ہے کوئی چیز

یہ کثرت آزار و غم و رنج کہاں تک
اے شام شب ہجر سحر بھی ہے کوئی چیز

کہتے ہو ہم آئیں گے مگر ظلم کریں گے
سوچو تم اگر تو یہ مگر بھی ہے کوئی چیز

باقی نہ رہی ناوک دل دوز کی حاجت
ظالم تری سیدھی سی نظر بھی ہے کوئی چیز

نالے سے کہوں گا کہ پہنچ عرش بریں تک
اب تیز مسافر یہ سفر بھی ہے کوئی چیز

بیتاب ادھر آپ پریشان ادھر ہم
آپس کی محبت کا اثر بھی ہے کوئی چیز

چلتی ہوئی میرے دل بے تاب کو لے کر
لاکھوں میں وہ دزدیدہ نظر بھی ہے کوئی چیز

بے کار نہ جائے گا مرے دل کا تڑپنا
نالہ ہے کوئی شے تو اثر بھی ہے کوئی چیز

آنکھوں کے لئے ذوق نظر بھی ہے کوئی بات
پہلو کے لئے درد جگر بھی ہے کوئی چیز

اللہ رے ترے حسن ضیا بار کا جلوہ
یہ پیش نظر ہو تو نظر بھی ہے کوئی چیز

اے نوحؔ شب ماہ میں پاس اس کو بٹھا کر
کہتا ہوں مرا رشک قمر بھی ہے کوئی چیز