EN हिंदी
معمورۂ افکار میں اک حشر بپا ہے | شیح شیری
mamura-e-afkar mein ek hashr bapa hai

غزل

معمورۂ افکار میں اک حشر بپا ہے

رضا ہمدانی

;

معمورۂ افکار میں اک حشر بپا ہے
ادراک بھی انساں کے لیے طرفہ بلا ہے

ہر نقش اگر تیرا ہی نقش کف پا ہے
پھر میرے لیے کوئی سزا ہے نہ جزا ہے

ہونٹوں پہ ہنسی سینوں میں کہرام بپا ہے
دیوانوں نے جینے کا چلن سیکھ لیا ہے

اب دشت جنوں بھی جو سمٹ آئے عجب کیا
دیوانہ کوئی لے کے ترا نام چلا ہے

اک بار جو ٹوٹے تو کبھی جڑ نہیں سکتا
آئینہ نہیں دل مگر آئینہ نما ہے

اپنوں سے کبھی موت جدا کر نہیں سکتی
جو ٹوٹ گیا ہاتھ وہ سینے پہ دھرا ہے

ہم ذوق سماعت سے ہیں محروم وگرنہ
ہر قطرۂ شبنم میں دھڑکنے کی صدا ہے

وہ سامنے آئے ہیں کچھ اس طرفہ ادا سے
آداب محبت کے بھی دل بھول گیا ہے

دھڑکا یہ لگا ہے کہ سحر آئے نہ آئے
اس غم سے سر شام ہی دل ڈوب رہا ہے