مال و زر کی قدر کیا خون جگر کے سامنے
اہل دنیا ہیچ ہیں اہل ہنر کے سامنے
دیر تک میں نے نہیں دیکھی پرندوں کے اڑان
دیر تک بیٹھا تھا کوئی میرے گھر کے سامنے
پاؤں پڑ جاتی ہیں لہریں پیچھے پڑ جاتی ہے شام
روز سورج ڈوب جاتا ہے نظر کے سامنے
جھیل پر کاٹی ہیں کتنی چاندنی راتیں مگر
شعر کی دیوی نہیں آئی اتر کے سامنے
یہ جلوس رنگ اپنے ساتھ کیا کچھ لے گیا
قتل گل ہوتا رہا دیوار و در کے سامنے
وقت مرہم ہے مگر مرہم کا بھی اک وقت ہے
رو پڑا ہوں اک پرانے ہم سفر کے سامنے
غزل
مال و زر کی قدر کیا خون جگر کے سامنے
طالب حسین طالب