ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے
بے کیفیتی عضو بدن ہونے لگی ہے
کچھ فرق سا محسوس نہیں شام و سحر میں
اٹھنے کے تصور سے تھکن ہونے لگی ہے
مفقود ہوئی خنکیٔ احساس نظر سے
سبزوں کو بھی دیکھے سے جلن ہونے لگی ہے
کچھ اس سے گلہ بھی ہے کچھ اپنی بھی خطائیں
یوں اس کے تصور سے چبھن ہونے لگی ہے
حساس بھی امروز طبیعت سے زیادہ
اور تیز بھی کچھ بوئے سمن ہونے لگی ہے
پہلے بھی تری بات ہی مرکز تھی سخن کا
اب یاد تری صرف سخن ہونے لگی ہے
اے تاجؔ ترے ایک نشیمن کے حسد میں
آ دیکھ کہ تخریب چمن ہونے لگی ہے

غزل
ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے
حسین تاج رضوی