EN हिंदी
لطف یہ ہے جسے آشوب جہاں کہتا ہوں | شیح شیری
lutf ye hai jise aashob-e-jahan kahta hun

غزل

لطف یہ ہے جسے آشوب جہاں کہتا ہوں

غلام ربانی تاباںؔ

;

لطف یہ ہے جسے آشوب جہاں کہتا ہوں
اسی ظالم کو فروغ دل و جاں کہتا ہوں

غیر کا ذکر ہی کیا مفت میں الزام نہ دو
دل کی ہر بات میں تم سے بھی کہاں کہتا ہوں

کسی مجبور کے ہونٹوں پہ جو آ جاتا ہے
اس تبسم کو میں اعجاز فغاں کہتا ہوں

نہ میں زندانی‌ٔ صحرا نہ اسیر گلشن
کوئی بندش ہو اسے جی کا زیاں کہتا ہوں

دل شکستہ سہی مایوس نہیں ہوں اے دوست
میں کہ ہر دور کو دور گزراں کہتا ہوں

حسن کا شیوۂ پیماں شکنی اچھا ہے
پھر بھی ہر سانس کو چشم نگراں کہتا ہوں

کوئی حد ہے مری آشفتہ سری کی تاباںؔ
ان کی زلفوں کو چراغوں کا دھواں کہتا ہوں