EN हिंदी
لطف ساماں عتاب یار بھی ہے | شیح شیری
lutf-saman itab-e-yar bhi hai

غزل

لطف ساماں عتاب یار بھی ہے

فراق گورکھپوری

;

لطف ساماں عتاب یار بھی ہے
محرم عشق شرمسار بھی ہے

سست پیمان و بے نیاز سہی
حسن تصویر انتظار بھی ہے

کیا کرے وہ نگاہ لطف کہ عشق
شادماں بھی ہے سوگوار بھی ہے

گلشن عشق ہوں خزاں میری
وجہ رنگینیٔ بہار بھی ہے

عقدۂ عشق کو نہ تو سمجھا
یہی عقدہ کشود کار بھی ہے

اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے
شامل جبر اختیار بھی ہے

آپ اپنا چڑھاؤ اپنا اتار
زندگی نشہ ہے خمار بھی ہے

ان نگاہوں میں ہے شکایت سی
عشق شاید جفا شعار بھی ہے

دل سے ہے دور بھی نگاہ تری
دل کے اندر ہے دل کے پار بھی ہے

سر بسر غرق نور ہو لیکن
زندگی اکتساب‌ نار بھی ہے

کون ترغیب ہوش دے کہ جنوں
بے خبر بھی ہے ہوشیار بھی ہے

خلوت حسن و عشق بھی ہے اداس
سرد کچھ بزم‌ روزگار بھی ہے

راز اس آنکھ کا نہیں کھلتا
دل شکیبا بھی بے قرار بھی ہے

خود تجھے بھی ہوئی نہ جن کی خبر
ان جفاؤں کا کچھ شمار بھی ہے

اس میں لاکھوں نظام شمسی ہیں
یوں تو دل تیرۂ روزگار بھی ہے

اس کی ضو اس کی گرمیاں مت پوچھ
زندگی نور بھی ہے نار بھی ہے

عشق‌ ہجراں نصیب کا بھی ہے دھیان
ترے وعدے کا اعتبار بھی ہے

عشق ہی سے ہیں منزلیں آباد
کارواں کارواں پکار بھی ہے

کوئی سمجھا اسے نہ دیکھ سکا
نگۂ شوخ شرمسار بھی ہے

اس سے چھٹ کر یہ سوچتا ہوں فراقؔ
اس میں کچھ اپنا اختیار بھی ہے