لطف خودی یہی ہے کہ شان بقا رہوں
انسان کے لباس میں بن کر خدا رہوں
جب مجھ کو میرے سامنے آنے سے عار ہے
کس حوصلے پہ تجھ کو خدا مانتا رہوں
پردے میں اک جھلک سی دکھانے سے فائدہ
جلوے کو عام کر کہ تجھے دیکھتا رہوں
اک تو کہ میرے دل ہی میں چھپ کر پڑا رہے
اک میں کہ ہر چہار طرف ڈھونڈھتا رہوں
تو ہی بتا کہ یہ کوئی انصاف تو نہیں
تیرا ہی جزو ہونے پہ تجھ سے جدا رہوں
بھیجا ہے اے خدا مجھے کیا تو نے اس لیے
ہر وقت زندگی میں رہین بلا رہوں
ہر گام مجھ کو کعبہ ہی مقصود ہے رتن
آیا ہے وہ مقام کہ ہر دم جھکا رہوں
غزل
لطف خودی یہی ہے کہ شان بقا رہوں
رتن پنڈوروی