لطف نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئیے ہیں
میں نے بھی زخم دل کے ان کو دکھا دئیے ہیں
کچھ حرف آرزو تھا کچھ یاد عیش رفتہ
جتنے تھے نقش دل میں ہم نے مٹا دیئے ہیں
فرط غم و الم سے جب دل ہوا ہے گریاں
اس نے عنایتوں کے دریا بہا دیئے ہیں
دیکھے ہیں تیرے تیور دھوکا نہ کھائیں گے اب
اٹھتے تھے ولولے کچھ ہم نے دبا دیئے ہیں
اس دل نشیں ادا کا مطلب کبھی نہ سمجھے
جب ہم نے کچھ کہا ہے وہ مسکرا دیئے ہیں
شوخ کر دیا ہے چھڑیوں سے ہم نے تم کو
کچھ حوصلے ہمارے تم نے بڑھا دیئے ہیں
کوئی تجھ کو دیکھے پردہ اٹھانے والے
تو نے تجلیوں کے پردے گرا دیئے ہیں
کرتا ہوں وحشتؔ ان سے عرض نیاز پنہاں
اس کام کے طریقے دل نے بتا دیئے ہیں
غزل
لطف نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئیے ہیں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی