لطف آغاز ملا لذت انجام کے بعد
حوصلہ دل کا بڑھا کوشش ناکام کے بعد
اب خدا جانے تجھے بھی ہے تعلق کہ نہیں
لوگ لیتے ہیں مرا نام ترے نام کے بعد
مے کدہ تھا تو وہیں روز چلا جاتا تھا
اب کہاں کوئی ٹھکانا ہے مرا شام کے بعد
کوئی آیا ہی نہیں کوئے وفا تک ورنہ
کچھ بھی مشکل نہیں یہ راہ دو اک گام کے بعد
ایک دو گھونٹ بہت تلخ ہے مے کی لیکن
لطف آئے گا تجھے شیخ دو اک جام کے بعد
وقت کٹتا رہا کٹتی رہیں راہیں لیکن
ہم نے مڑ مڑ کے تمہیں دیکھا ہر اک گام کے بعد
کچھ تو ساقی سے گلہ ہوگا حسنؔ کو ورنہ
کون مے خانے سے اٹھتا ہے دو اک جام کے بعد
غزل
لطف آغاز ملا لذت انجام کے بعد
حسن نعیم