لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
مے نہیں یار نہیں شیشہ نہیں جام نہیں
کب مجھے یاد رخ و زلف سیہ فام نہیں
کوئی شغل اس کے سوا صبح سے تا شام نہیں
ہر سخن پر مجھے دیتا ہے وہ بد خو دشنام
کون سی بات مری قابل انعام نہیں
نیک نامی میں دلا فرقۂ عشاق ہیں عشق
ہے وہ بدنام محبت میں جو بدنام نہیں
چہرۂ یار کے سودے میں کہا کرتا ہوں
رخ ہے یہ صبح نہیں زلف ہے یہ شام نہیں
بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے
دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں
حلقۂ زلف بتاں میں ہے بھری نکہت گل
اے دل اس لام میں بوئے گل اسلام نہیں
ابتدا عشق کی ہے دیکھ امانتؔ ہشیار
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں
غزل
لطف اب زیست کا اے گردش ایام نہیں
امانت لکھنوی