EN हिंदी
لٹاؤں مستیاں سرسبز رہ گزر کی طرح | شیح شیری
luTaun mastiyan sarsabz rahguzar ki tarah

غزل

لٹاؤں مستیاں سرسبز رہ گزر کی طرح

اکبر کاظمی

;

لٹاؤں مستیاں سرسبز رہ گزر کی طرح
دلوں کو راحتیں بخشوں ہرے شجر کی طرح

کرے وہ رات کی مانند داغ داغ مجھے
میں رنگ رنگ کروں گا اسے سحر کی طرح

وہ دھوپ ہے کہ ہوا پھول ہے کہ شبنم ہے
کبھی تو دیکھ اسے صاحب نظر کی طرح

وہ بے وفا مجھے دل سے نکال کر دیکھے
میں اس کے ذہن میں تڑپوں سدا شرر کی طرح

یہ روز و شب کا تسلسل بتا رہا ہے مجھے
ہے بیقرار مشیت ابھی بشر کی طرح

پیمبروں کے صحیفے ہیں اعتماد مرا
جہان زیست میں پھیلوں گا بحر و بر کی طرح

ستم ہے کاظمیؔ گھر میں بھی اب سبھی لمحے
گراں گزرتے ہیں احساس پر سفر کی طرح