لٹاؤں مستیاں سرسبز رہ گزر کی طرح
دلوں کو راحتیں بخشوں ہرے شجر کی طرح
کرے وہ رات کی مانند داغ داغ مجھے
میں رنگ رنگ کروں گا اسے سحر کی طرح
وہ دھوپ ہے کہ ہوا پھول ہے کہ شبنم ہے
کبھی تو دیکھ اسے صاحب نظر کی طرح
وہ بے وفا مجھے دل سے نکال کر دیکھے
میں اس کے ذہن میں تڑپوں سدا شرر کی طرح
یہ روز و شب کا تسلسل بتا رہا ہے مجھے
ہے بیقرار مشیت ابھی بشر کی طرح
پیمبروں کے صحیفے ہیں اعتماد مرا
جہان زیست میں پھیلوں گا بحر و بر کی طرح
ستم ہے کاظمیؔ گھر میں بھی اب سبھی لمحے
گراں گزرتے ہیں احساس پر سفر کی طرح
غزل
لٹاؤں مستیاں سرسبز رہ گزر کی طرح
اکبر کاظمی