لٹا دئیے تھے کبھی جو خزانے ڈھونڈھتے ہیں
نئے زمانے میں کچھ دن پرانے ڈھونڈھتے ہیں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے میں وہ لمحہ ہوں
کہ اک زمانے سے جس کو زمانے ڈھونڈھتے ہیں
کچھ احتیاط بھی اب کے طلب میں رکھنا پڑی
سو اس کو اور کسی کے بہانے ڈھونڈھتے ہیں
لپک کے آتے ہیں سینے کی سمت تیر ایسے
پرند شاخ پہ جیسے ٹھکانے ڈھونڈھتے ہیں
ہماری سادہ مزاجی بھی کیا قیامت ہے
کہ اب قفس ہی میں ہم آشیانے ڈھونڈھتے ہیں
غزل
لٹا دئیے تھے کبھی جو خزانے ڈھونڈھتے ہیں
منظور ہاشمی