لبھا رہی تو ہے دنیا چمک دمک کی مجھے
مگر حیات گوارا نہیں دھنک کی مجھے
ہمیشہ اپنی لڑائی میں آپ لڑتا ہوں
نہیں رہی کبھی حاجت کسی کمک کی مجھے
بہت دنوں سے زمان و مکان حائل ہیں
کہ آس بھی نہ رہی اب تری جھلک کی مجھے
مرے قلم کی جو زد میں یہ بحر و بر آتے
دہائی دینے لگے نان اور نمک کی مجھے
مرا گمان یقیں میں بدلتا رہتا ہے
سمجھنے والے بھلے ہی سمجھ لیں شکی مجھے
چنانچہ گردش ایام تھک کے بیٹھ گئی
میں سخت جان ہوں کیا پیستی یہ چکی مجھے
اسی لیے تو میں نمٹا رہا ہوں کام اپنے
میں جانتا ہوں کہ مہلت ہے آج تک کی مجھے
ادا کیا اسی سکے میں بے جھجک میں نے
ہوئی جہاں کہیں محسوس بو ہتک کی مجھے
خراب حال یہ بے خیرؔ و بے ادب ہو کر
بھٹک نہ جائے کہیں فکر ہے سڑک کی مجھے

غزل
لبھا رہی تو ہے دنیا چمک دمک کی مجھے
رؤف خیر